پرچہ چوری کا مگر اک بھی نہ تھانے میں کٹا
پرچہ چوری کا مگر اک بھی نہ تھانے میں کٹا
دل کئی عشق کے ماروں کے چرائے بھی گئے
پھر بھی "ایماں"متزلزل نہ ہوئے "رانجھوں" کے
دانت عشاق کے کُوچوں میں گرائے بھی گئے
قہقہے تھے کہ لگاتار لگاتا وہ رہا
حزنیہ گیت کئی اس کو سنائے بھی گئے
باوجود اس کے غزل خواں پہ ٹماٹر ہی چلے
داد دینے کے لیئے لوگ بٹھائے بھی گئے
بیر پر جا کے مرے سامنے بیٹھے ہیں سبھی
ہاتھ کے طوطے کئی بار اڑائے بھی گئے
بیگمیں تینوں بیک وقت وہاں آ دھمکیں
میرِ محفل بڑی ذلت سے اٹھائے بھی گئے"
------------------------------------------------------------------------
میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں
میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں
وہ کبھّے ہتھ سے میرے کول گذرے کار کے وچ میں
اکیلے تو نہیں ملتے جدوں بھی اب وہ ملتے ہیں
کبھی چھ سات کے وچ میں کبھی دوچار کے وچ میں
میں بولا، بادشاہو! میری اِک چھوٹی سی گَل سُن لو
وہ بولے، چھڈو جی! کیا گل سنیں بازار کے وچ میں
لبوں کے وِچ لئے پھرتا ہے تُو گُل قند او ظالم
مِلا گل قند تھوڑی شربتِ دیدار کے وچ میں
کبھی مینوں بھی لے چل ظالماں تُو وچ کلفٹن کے
کدوں تک میں رہوں گا “گولی مار“ کے وچ میں
سویرے اُٹھ کے منگھے پیر کے وچ ایہہ دعا مانگی
خدا مجھ کو بھی پہنچا دے تِرے دربار کے وچ میں
وہ میری “ہیر“ ہے اور میں ہوں “رانجھے خاں“ مجید اُس کا
ہمارا ذکر ہے ہر کوچہ و بازار کے وچ میں
-------------------------------------------------------------------------
اس کے دل اندر ساڈی یاد کا روڑا رڑکا ہوگا
اس کے دل اندر ساڈی یاد کا روڑا رڑکا ہوگا
ماہی بے آب کی مانند‘ تڑپا ہوگا، پھڑکا ہوگا
شور شرابا کھڑکا دڑکا سن کر اس نے گیس لگایا
یا بادل گرجا ہے اوپر‘ یا بیگم کا کڑکا ہوگا
سینے کی ہانڈی کے اندر وکھری ٹائیپ کی شوں شوں ہوگی
ساڈے دل کی دال کے اوپر اس کے حسن کا تڑکا ہوگا
خوش ہو کر دروازہ کھولا اگوں میٹر ریڈر نکلا
وہ سمجھی تھی آج بھی سامنے والا لڑکا ہوگا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں